اگرچہ شادی ہوتے ہی لڑکی کی زندگی تبدیلیوں کی شاہراہ پر گامزن ہوجاتی ہے لیکن تبدیلی کا بڑا اور اہم موڑ ماں بننے کے بعد ہی آتا ہے۔ تکلیف کے باوجود بااولاد ہونے کا احساس بڑا خوش کن ہوتا ہے۔ بچے کے دنیا میں آتے ہی خاندان کی زندگی یکسر بدل جاتی ہے تاہم خوشیوں کے ان احساسات کے ساتھ ساتھ ماں اوربچے کی صحت و سلامتی پر توجہ دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر پہلی دفعہ ماں بننے والی لڑکیوںکو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
زچگی کے بعد کا پہلا ہفتہ
ہمارے ہاں بچے کی پیدائش کے بعد کا پہلا ہفتہ جسے عام زبان میں چھٹی کہتے ہیں غیر معمولی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ خاص طور پر ایسی لڑکیاں جنہیں کسی وجہ سے بڑوں کی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی انہیں مختلف پریشانیوں کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن گھبرائیے نہیں ہم آپ کو بڑی بوڑھیوں کے تجربات بتاتے ہیں کہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے آپ کوکیا کرنا چاہیے۔بعض لڑکیاں جن کے ہاں نارمل پیدائش ہوتی ہے زچگی کے دن سے ہی چلنا پھر نا شرع کردیتی ہیں جو بعض اوقات نقصان دہ اور پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ زچگی کا پہلا دن مکمل آرام کرکے گزاریں۔ اگر بظاہر ایسا لگے بھی کہ کوئی تکلیف نہیں ہے پھر بھی چلنے پھرنے یا بیڈ پر بار بار اٹھنے سے گریز کریں۔ دوسرے دن احتیاط سےچل پھر سکتی ہیں۔ اس سے ٹانگوں میں خون کی گردش بہتر ہوگی اوررگوں کے پھولنے کی شکایت بھی نہیں ہوگی۔
سیڑھیاں چڑھنے میں احتیاط کریں
ایک ہفتہ بعد ماں گھرکا ہلکا پھلکا کام شروع کرسکتی ہے۔ تاہم اگر زچگی آپریشن سےہوئی ہو تو ایسی صورت میں معالج کا مشورہ ضروری ہے۔ اگر وہ اجازت دے تو چلنے پھرنے اور کام کاج کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ البتہ بھاری کام، وزن اٹھانے، جھکنے یا سیڑھیاں چڑھنے سے احتیاط ہی کریں کیوں کہ ایسے کام کرنے سے ٹانگوں پر بوجھ پڑسکتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ ان سے خون رسنا شروع ہوجائے۔ زچگی کے دس پندرہ روز تک ورزش وغیرہ بھی نہ کریں۔ بس کمرے میں چہل قدمی ہی کافی ہے۔
غذائی ضروریات
برسوں سے تجربہ کار خواتین اوردنیا کے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ماں کا دودھ ہی بچے کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ پیدائش کے پہلے گھنٹے ہی سے بچے کو دودھ پلانا شروع کردینا چاہیے تاہم بچے کودودھ پلانے سے قبل ماں کسی اچھے صابن سے اپنے ہاتھ اور جسم صاف کرے اور بچے کودائیں بائیں سمت سےباری باری دودھ پلائے۔ بچہ رفتہ رفتہ دودھ پینے کا اپنا ایک معمول بنالے گا جو عام طور پر تین سے چار گھنٹے کا ہوتا ہےاور جب بھی اسے بھوک ستائے گی وہ رو کر اس کا اظہار کرے گا۔ نومولود بچے کو خاص طور پر کھیس(پہلا دودھ) کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ دودھ کےعلاوہ بچے کو کچھ نہ دیں۔ یہاں تک کہ شدید گرمی میں بھی پانی نہ پلائیں اس لیے کہ ماں کے دودھ میں پانی کی کمی پورا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
ماں کی غذائی ضروریات
ہمارے ہاں زچگی کے بعد خاص طور پر مائوں کے لیے چکنائی سے بھرپور کھانےبنائے جاتے ہیں بلکہ مغزیات سے بھرے ہوتے ہیں حالانکہ ماں بننے کے بعد خواتین کو عام حالات سے صرف 550 حرارے اور 25 گرام زائد پروٹین کھانے کی ضرورت ہوتی ہے جو گھر کے متوازن کھانے سے بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ماں کو روٹی، چاول، دال، سبزیاں، پھل، دودھ، انڈے اور گوشت پر مشتمل غذائیں ملنا بہت ضروری ہیں۔ اصلی گھی دن بھر میں زیادہ سے زیادہ تین چائےکے چمچ کے برابر ہی کھانا کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح چند دانے حسب طبیعت بادام اور پستے کافی ہوتے ہیں۔یہ بات یاد رکھیں کہ اس دوران زیادہ بھاری غذائوں کا استعمال ہی خواتین میں موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔جس کے بعد دبلا ہونا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔
فولاد کی اضافی ضرورت
دوران حمل اور زچگی کے بعد فولاد کی زائد مقدار جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اگر زچگی کے بعد تھوڑا سا اضافہ بھی ہوجائے تو بھی کوئی نقصان نہیں کیونکہ فولاد کے ذریعے خون کی کمی دور ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں دودھ پلانے کی وجہ سے بھی فولاد کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے ان سبزیوں اور چیزوں کو غذا
میں شامل رکھیں جن میں فولاد ہوتا ہے۔ مثلاً پالک اوردیگر ہرے پتوں کی سبزیاں وغیرہ۔صفائی کا خاص خیال رکھیں:ان دنوں ماں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاف ستھری رہے۔ نارمل زچگی کی صورت میں وہ غسل کرسکتی ہے۔ صاف ستھرا، ڈھیلا ڈھالا اور آرام دہ لباس پہننا چاہیے۔ معیاری نیپکن یا صاف اورجراثیم سے محفوظ کپڑا استعمال کرنا چاہیے تاکہ کسی قسم کے چھوت کے مرض یا جلد کی الرجی سے بچا جاسکے۔
بچے پر خصوصی توجہ:٭۔سب سے پہلےبچے کا وزن کرائیں اور اس کے مطابق اس کی صحت کا خیال رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔٭۔بچے کی نشوونما سے متعلق زچگی خانہ سے فارم ضرور لیں اور اس میں درج معلومات کے مطابق اپنے بچے کی صحت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
٭۔بچے کو اپنے دودھ کے علاوہ کسی قسم کے اضافی وٹامنز نہیں دینے چاہئیں۔ یہ فائدے کی بجائے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ البتہ معالج اگر مشورہ دے تو الگ بات ہے۔ بچے کو موسم کے مطابق لباس پہنائیں۔ سردیوں میں خاص طور پر لباس کا خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ بچے میں قوت مدافعت کا نظام انتہائی کمزور ہوتا ہے اور وہ بہت جلد موسمی اثرات کی زد میں آجاتا ہے۔ اسی طرح گرمیوں میں ٹھنڈے، پتلے اور نرم لباس منتخب کرنے چاہئیں۔٭۔زیادہ یا دیگر بیمار افراد کی گود میں دینے سے احتیاط کرنا ہی بہتر ہے۔٭۔بچے کو خشک رکھنا بھی ضروری ہے یعنی جب بھی وہ پیشا ب وغیرہ سے فارغ ہو اس کی اچھی طرح صفائی کرکے کپڑے تبدیل کردیں، نیم گرم پانی سے جگہ صاف کرکے پائوڈر لگادیں۔ اس کی بغلوں میں بھی پائوڈر لگائیں۔ناف کو کبھی نہیں چھیڑنا چاہیے۔ یہ سوکھ کرخود جھڑجاتی ہے۔ تاہم اس پر گرم کرکے ٹھنڈا کیا ہوا کھوپرے کا تیل کبھی کبھار لگاتے رہنا بہتر ہے۔ اس پر مٹی پانی یا گوبر وغیرہ ہرگز نہ لگائیں (جیسا کہ دیہات وغیرہ میں یہ چیزیں لگائی جاتی ہیں) یہ انتہائی خطرناک کام ہے۔ اس سےبچے کو ٹیٹنس بھی ہوسکتا ہے۔تشویشنا ک باتوں پر نظر رکھیں:ماںاوربچے میں بعض پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں لہٰذا اپنی اوربچے کی صحت سے متعلق ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے اور بعض علامات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرنا خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔بچوں میں خطرے کی علامات۔٭۔دودھ چوسنے میں دقت کا سامنا۔٭۔بہت کمزور اور نحیف آواز میں رونا۔٭۔سانس لینے کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ۔٭۔ہونٹوں، چہرے یا ناخنوں کا نیلا ہونا۔٭۔جلدا ورآنکھوں کی پیلی رنگت (یرقان)۔٭۔آنول کی سوجن، سرخی یا ربطوبت کا اخراج۔ ٭۔پیدائش کے 24گھنٹوں میں پیشاب کا نہ کرنا۔٭۔آنکھوں سےپانی کامسلسل بہنا۔٭۔دست میں خون آنا۔ماں میں خطرےکی علامات٭۔خون کا بکثرت اخراج۔٭۔مسلسل بخار۔٭۔بدبودار رطوبت کا اخراج۔٭۔پنڈلی کے پٹھوں میں درد اور سوجن۔ ٭۔چھاتیوں میں بھاری پن اور مستقل درد۔٭۔پیٹ کے نچلے حصے میں شدید قسم کا درد۔٭۔پیشاب کرنے میں تکلیف۔اگر یہ علامات ماں یا بچے کسی میں بھی ظاہر ہوں تو فوراً اپنے معالج کی صورت حال سے آگاہ کرنا چاہیے۔دوران حمل کسی ایک ڈاکٹر (گائناکالوجسٹ) سے وقتاً فوقتاً معائنہ کرواتے رہنا چاہیے اور یہ زیادہ بہتر ہے کہ زچگی کے وقت وہی ڈاکٹر ماں کے قریب ہو جو دوران حمل ماں کا معائنہ کرتی رہی۔
ڈاکٹر خالدہ اشفاق‘لاہور
اگرچہ شادی ہوتے ہی لڑکی کی زندگی تبدیلیوں کی شاہراہ پر گامزن ہوجاتی ہے لیکن تبدیلی کا بڑا اور اہم موڑ ماں بننے کے بعد ہی آتا ہے۔ تکلیف کے باوجود بااولاد ہونے کا احساس بڑا خوش کن ہوتا ہے۔ بچے کے دنیا میں آتے ہی خاندان کی زندگی یکسر بدل جاتی ہے تاہم خوشیوں کے ان احساسات کے ساتھ ساتھ ماں اوربچے کی صحت و سلامتی پر توجہ دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ خاص طور پر پہلی دفعہ ماں بننے والی لڑکیوںکو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ زچگی کے بعد کا پہلا ہفتہہمارے ہاں بچے کی پیدائش کے بعد کا پہلا ہفتہ جسے عام زبان میں چھٹی کہتے ہیں غیر معمولی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ خاص طور پر ایسی لڑکیاں جنہیں کسی وجہ سے بڑوں کی رہنمائی حاصل نہیں ہوتی انہیں مختلف پریشانیوں کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن گھبرائیے نہیں ہم آپ کو بڑی بوڑھیوں کے تجربات بتاتے ہیں کہ ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے آپ کوکیا کرنا چاہیے۔بعض لڑکیاں جن کے ہاں نارمل پیدائش ہوتی ہے زچگی کے دن سے ہی چلنا پھر نا شرع کردیتی ہیں جو بعض اوقات نقصان دہ اور پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ زچگی کا پہلا دن مکمل آرام کرکے گزاریں۔ اگر بظاہر ایسا لگے بھی کہ کوئی تکلیف نہیں ہے پھر بھی چلنے پھرنے یا بیڈ پر بار بار اٹھنے سے گریز کریں۔ دوسرے دن احتیاط سےچل پھر سکتی ہیں۔ اس سے ٹانگوں میں خون کی گردش بہتر ہوگی اوررگوں کے پھولنے کی شکایت بھی نہیں ہوگی۔سیڑھیاں چڑھنے میں احتیاط کریںایک ہفتہ بعد ماں گھرکا ہلکا پھلکا کام شروع کرسکتی ہے۔ تاہم اگر زچگی آپریشن سےہوئی ہو تو ایسی صورت میں معالج کا مشورہ ضروری ہے۔ اگر وہ اجازت دے تو چلنے پھرنے اور کام کاج کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ البتہ بھاری کام، وزن اٹھانے، جھکنے یا سیڑھیاں چڑھنے سے احتیاط ہی کریں کیوں کہ ایسے کام کرنے سے ٹانگوں پر بوجھ پڑسکتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ ان سے خون رسنا شروع ہوجائے۔ زچگی کے دس پندرہ روز تک ورزش وغیرہ بھی نہ کریں۔ بس کمرے میں چہل قدمی ہی کافی ہے۔ غذائی ضروریات برسوں سے تجربہ کار خواتین اوردنیا کے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ماں کا دودھ ہی بچے کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ پیدائش کے پہلے گھنٹے ہی سے بچے کو دودھ پلانا شروع کردینا چاہیے تاہم بچے کودودھ پلانے سے قبل ماں کسی اچھے صابن سے اپنے ہاتھ اور جسم صاف کرے اور بچے کودائیں بائیں سمت سےباری باری دودھ پلائے۔ بچہ رفتہ رفتہ دودھ پینے کا اپنا ایک معمول بنالے گا جو عام طور پر تین سے چار گھنٹے کا ہوتا ہےاور جب بھی اسے بھوک ستائے گی وہ رو کر اس کا اظہار کرے گا۔ نومولود بچے کو خاص طور پر کھیس(پہلا دودھ) کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ دودھ کےعلاوہ بچے کو کچھ نہ دیں۔ یہاں تک کہ شدید گرمی میں بھی پانی نہ پلائیں اس لیے کہ ماں کے دودھ میں پانی کی کمی پورا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ماں کی غذائی ضروریاتہمارے ہاں زچگی کے بعد خاص طور پر مائوں کے لیے چکنائی سے بھرپور کھانےبنائے جاتے ہیں بلکہ مغزیات سے بھرے ہوتے ہیں حالانکہ ماں بننے کے بعد خواتین کو عام حالات سے صرف 550 حرارے اور 25 گرام زائد پروٹین کھانے کی ضرورت ہوتی ہے جو گھر کے متوازن کھانے سے بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔ ماں کو روٹی، چاول، دال، سبزیاں، پھل، دودھ، انڈے اور گوشت پر مشتمل غذائیں ملنا بہت ضروری ہیں۔ اصلی گھی دن بھر میں زیادہ سے زیادہ تین چائےکے چمچ کے برابر ہی کھانا کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح چند دانے حسب طبیعت بادام اور پستے کافی ہوتے ہیں۔یہ بات یاد رکھیں کہ اس دوران زیادہ بھاری غذائوں کا استعمال ہی خواتین میں موٹاپے کا باعث بنتا ہے۔جس کے بعد دبلا ہونا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ فولاد کی اضافی ضرورتدوران حمل اور زچگی کے بعد فولاد کی زائد مقدار جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اگر زچگی کے بعد تھوڑا سا اضافہ بھی ہوجائے تو بھی کوئی نقصان نہیں کیونکہ فولاد کے ذریعے خون کی کمی دور ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں دودھ پلانے کی وجہ سے بھی فولاد کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے اس کے لیے ان سبزیوں اور چیزوں کو غذا (باقی صفحہ59 پر)(بقیہحاملہ خواتین اور بڑی بوڑھیوں کے تجربات)میں شامل رکھیں جن میں فولاد ہوتا ہے۔ مثلاً پالک اوردیگر ہرے پتوں کی سبزیاں وغیرہ۔صفائی کا خاص خیال رکھیں:ان دنوں ماں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاف ستھری رہے۔ نارمل زچگی کی صورت میں وہ غسل کرسکتی ہے۔ صاف ستھرا، ڈھیلا ڈھالا اور آرام دہ لباس پہننا چاہیے۔ معیاری نیپکن یا صاف اورجراثیم سے محفوظ کپڑا استعمال کرنا چاہیے تاکہ کسی قسم کے چھوت کے مرض یا جلد کی الرجی سے بچا جاسکے۔بچے پر خصوصی توجہ:٭۔سب سے پہلےبچے کا وزن کرائیں اور اس کے مطابق اس کی صحت کا خیال رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔٭۔بچے کی نشوونما سے متعلق زچگی خانہ سے فارم ضرور لیں اور اس میں درج معلومات کے مطابق اپنے بچے کی صحت کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔٭۔بچے کو اپنے دودھ کے علاوہ کسی قسم کے اضافی وٹامنز نہیں دینے چاہئیں۔ یہ فائدے کی بجائے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ البتہ معالج اگر مشورہ دے تو الگ بات ہے۔ بچے کو موسم کے مطابق لباس پہنائیں۔ سردیوں میں خاص طور پر لباس کا خیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ بچے میں قوت مدافعت کا نظام انتہائی کمزور ہوتا ہے اور وہ بہت جلد موسمی اثرات کی زد میں آجاتا ہے۔ اسی طرح گرمیوں میں ٹھنڈے، پتلے اور نرم لباس منتخب کرنے چاہئیں۔٭۔زیادہ یا دیگر بیمار افراد کی گود میں دینے سے احتیاط کرنا ہی بہتر ہے۔٭۔بچے کو خشک رکھنا بھی ضروری ہے یعنی جب بھی وہ پیشا ب وغیرہ سے فارغ ہو اس کی اچھی طرح صفائی کرکے کپڑے تبدیل کردیں، نیم گرم پانی سے جگہ صاف کرکے پائوڈر لگادیں۔ اس کی بغلوں میں بھی پائوڈر لگائیں۔ناف کو کبھی نہیں چھیڑنا چاہیے۔ یہ سوکھ کرخود جھڑجاتی ہے۔ تاہم اس پر گرم کرکے ٹھنڈا کیا ہوا کھوپرے کا تیل کبھی کبھار لگاتے رہنا بہتر ہے۔ اس پر مٹی پانی یا گوبر وغیرہ ہرگز نہ لگائیں (جیسا کہ دیہات وغیرہ میں یہ چیزیں لگائی جاتی ہیں) یہ انتہائی خطرناک کام ہے۔ اس سےبچے کو ٹیٹنس بھی ہوسکتا ہے۔تشویشنا ک باتوں پر نظر رکھیں:ماںاوربچے میں بعض پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں لہٰذا اپنی اوربچے کی صحت سے متعلق ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے اور بعض علامات کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرنا خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔بچوں میں خطرے کی علامات۔٭۔دودھ چوسنے میں دقت کا سامنا۔٭۔بہت کمزور اور نحیف آواز میں رونا۔٭۔سانس لینے کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ۔٭۔ہونٹوں، چہرے یا ناخنوں کا نیلا ہونا۔٭۔جلدا ورآنکھوں کی پیلی رنگت (یرقان)۔٭۔آنول کی سوجن، سرخی یا ربطوبت کا اخراج۔ ٭۔پیدائش کے 24گھنٹوں میں پیشاب کا نہ کرنا۔٭۔آنکھوں سےپانی کامسلسل بہنا۔٭۔دست میں خون آنا۔ماں میں خطرےکی علامات٭۔خون کا بکثرت اخراج۔٭۔مسلسل بخار۔٭۔بدبودار رطوبت کا اخراج۔٭۔پنڈلی کے پٹھوں میں درد اور سوجن۔ ٭۔چھاتیوں میں بھاری پن اور مستقل درد۔٭۔پیٹ کے نچلے حصے میں شدید قسم کا درد۔٭۔پیشاب کرنے میں تکلیف۔اگر یہ علامات ماں یا بچے کسی میں بھی ظاہر ہوں تو فوراً اپنے معالج کی صورت حال سے آگاہ کرنا چاہیے۔دوران حمل کسی ایک ڈاکٹر (گائناکالوجسٹ) سے وقتاً فوقتاً معائنہ کرواتے رہنا چاہیے اور یہ زیادہ بہتر ہے کہ زچگی کے وقت وہی ڈاکٹر ماں کے قریب ہو جو دوران حمل ماں کا معائنہ کرتی رہی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں